بسم اللہ الرحمن الرحیم

      نصف شعبان کی محفل شبینہ کا حکم

 الشیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ

 

 الحمد للہ الذی اکمل لناالدین واتم علینا النعمة ،والصلاة والسلام علی نبیہ ورسولہ محمد نبی التوبہ والرحمہ

  سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہما رے لئے ہما رے دین کو مکمل کیا اور ہم پر نعمت تمام کی اور درود و سلا م اسکے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو نبی التوبہ اور الر حمہ ہیں ۔

   اما بعد : بے شک اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فر ما یا : اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الاِسلاَمَ دِینًا(المائدہ : ٣) آج میں نے تمہا رے لئے تمہا رے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمہا رے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ  (الشورٰی:۲۱) کیا یہ لو گ کچھ ایسے شریک خدا رکھتے ہیں جنھوںنے انکے لئے دین کی نو عیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جسکا اللہ نے اذن نہیں دیا ہے ۔ اور صحیحین میں عائشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر تی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : من احدث نی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد۔جس نے ہما رے اس دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ نا قابل قبول ہے ۔اور صحیح مسلم میں جا بر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ میں فرمایا کر تے تھے ۔امابعد فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیرالھدی ھدی محمدصلی اللہ علیہ وسلم وشر الامور محدثا تھا و کل بدعة ضلالة۔ ٍ

حمد وثنا کے بعد(یاد رکھو )بے شک بہترین با ت اللہ کی کتاب اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور بد ترین کام دین میں نئی بات ایجاد کر نا ہے اور ہر بد عت گمرا ہی ہے ۔ اور اسی معنی کی بہت سی آیات اور احادیث ہیں اور وہ کھلی دلیل ہیں اس بات پر کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بے شک اس امت کے لئے اسکا دین مکمل کر دیا ہے اور اس پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور اس وقت تک اپنے نبی کو جس پرد رود و سلا م ہو فوت نہ کیا جب تک انھوں نے اسے کھلم کھلا پہنچا نہیں دیا اور امت کے لئے بیان نہیںکر دیا اقوال واعمال میں سے جو مشروع کیا اللہ نے انکے لئے ۔

   اور وضاحت کر دی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ بے شک اسکے بعدجو نئی چیز لوگ ایجادکریں گے اور اسے دین اسلام سے منسوب کریں گے خواہ اقوال ہوںیا اعمال تو وہ سب کی سب بد عت ِمردوداسی کے ذمہ ہے جس نے اسے ایجاد کیا اور اگر چہ اسکی نیت اچھی ہو اور بے شک اصحاب ِرسول نے اس معاملے کوخوب سمجھ لیا تھا اور اسی طرح علماءاسلام نے جو انکے بعد تھے ان سب نے بدعت کا انکار بھی کیا اور اس سے بچے بھی جیسا کہ سنت کی تعظیم اور بدعت کے انکار کے ضمن میں جیسا کہ ابن وضاح، طر طوشی اور ابو شامہ اور انکے علاوہ دوسرے لو گوںنے بھی کیا

 اور انہی بدعتوں میں سے جو لو گوں نے ایجاد کر لی ہیں ایک بدعت نصف شعبان کی رات محفل منعقد کر نا اور اسکے دن کو روزے کیلئے خاص کر نا ہے ۔اور اس پر کو ئی بھی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے اور اسکی فضیلت میں چند ضعیف احادیث وارد ہو ئی ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔ جہاں تک اس رات نماز پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں جو آتا ہے وہ بھی سب کا سب مو ضوع ہے جیسا کہ بہت سے اہل علم بتا تے ہیں اور عنقریب انکی بعض باتوں کا ذکر آگے آئے گا انشاءاللہ اور اس موضوع پر جو کچھ بعض آثار سلف میں آتا ہے جنکا تعلق شام سے اور اسکے علا وہ ہے،اس پر جمھور علما کا اجماع ہے کہ نصف شعبان کے شبینے بدعت ہیں اور اسکی فضیلت میں جو بھی احادیث آتی ہیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں اوربعض تو موضوع (گھڑی ہوئی ) ہیں ۔اور اس میں سے جو خبر دی حافظ ابن رجب نے اپنی کتاب لطائف المعارف اور اسکے علاوہ میںبھی ۔اور عبادات میں بھی احادیث ضعیفہ اس وقت قابل عمل ہوتی ہیں جب انکی دلیل ہمیں کسی صحیح حدیث سے بھی مل جائے اور جہاں تک نصف شعبان کی محفلوں کا تعلق ہے تو انکے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس کی بنا پر ان ضعیف احادیث کو تقویت مل سکے ۔

اور ذکر کیا اس صاف قاعدہ کا امام ابو العباس شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اور میں اسے آپکے لئے نقل کر تا ہوں اے قاری جو کہا بعض اہل علم نے اس مسئلے میں کہ یہاں تک کہ تم کھلی دلیل پر ہو اسمیں اور علماءجن پر اللہ کی رحمتیں ہوں انکا اجماع اس پر ہے کہ اللہ عزو جل کی کتاب اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میںجو مسائل ہیں اگر لوگ اسمیں تنازع کریں تو یہ واجب ہے کہ اسکا رد کیا جا ئے کیوں کہ انکا یا ان دونوںمیں سے کسی ایک کاحکم شریعت ہے جو کہ واجب الاتباع ہے ۔اور جو کوئی مخالفت کرے گا ان دونوں کی تو اسکو ایک طرف ڈالنا واجب ہے اور جو نہیں ارادہ کرے ان دونوں کی عبادات کا تو وہ بدعت ہے اور اسکا یہ فعل ناجا ئز ہے ۔قران و سنت کی طرف دعوت دینا اور اسکی تعریف کر نا فضیلت ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فر ما یا : یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُولِی الاَمرِ مِنکُم( النسا) وَمَا اختَلَفتُم فِیہِ مِن شَیئٍ فَحُکمُہ اِلَی اللّٰہِ(الشوری ) قُل اِن کُنتُم تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُونِی یُحبِبکُمُ اللّٰہُ وَ َیَغفِر لَکُم ذُنُوبَکُم (ال عمران) اور اسی معنی کی بہت سی دوسری آیات ہیں ۔ اور یہ آیات نص ہیں کہ وہ مسائل جو قر آن اور سنت کے خلاف ہیں انکا رد کر نا واجب ہے اور اسکے احکامات پر راضی ہو نا وا جب ہے اور یہی ایمان کا تقاضاہے اور بہتر ین ہے بندوں کے لئے دنیا اور آخرت میںانجام کے اعتبارسے ۔حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اپنی کتاب لطائف المعارف میں اس مسئلے کے بارے میں فر ما تے ہیں اسکے بعد جو پہلے گزر چکا ۔ جو دلیل ہے اسکی: اور اہل شام میں سے لوگ خالد بن معدا ن ،مکحول اور لقمان بن عامر وغیرہ کی پیروی میںنصف شعبان کی رات کی تعظیم کیا کر تے اور بہت زیادہ اسمیں عبادات کر تے تھے ۔اور انہی سے لو گوں نے اس رات کی فضیلت اور تعظیم لی حالانکہ تحقیق کہا جا تا ہے کہ یہ ان تک اسرائیلی آثارکے ذریعے پہنچا تو پھر جب یہ ان سے دوسرے شہر وں میں مشہور ہو گیا تو لو گوں نے اس معاملے میں اختلاف کیا تو ان میں سے جنھوں نے اسے قبول کیا اور موافقت کی اور تعظیم کی ان میں اہل بصرہ کا گروہ ہے اور اسکے علاوہ بھی ہیں اور انکار کیا اسکا اکثرعلماءاہل حجاز نے ان میں عطاءاور ابن ابی ملیکہ ہیں اور نقل کیا اسکو عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے فقہاءاہل مدینہ سے اور وہ قول ہے اصحاب مالک اور انکے علاوہ کا وہ کہتے ہیں کہ یہ ساری کی ساری بدعات ہیں اور علماءاہل شام نے اختلاف کیا اسکو زندہ کر نے میں دوا قوال کی بنیاد پر ان دونوں میں سے ایک یہ ہے کہ :

  بے شک مساجد میں باجماعت شب بیداری کرنا مستحب ہے اسی لئے خالد بن معد ان اور لقمان بن عامراور ان دو نوں کے علا وہ بھی لوگ اسمیں اچھے کپڑے پہنتے خوشبو لگاتے سرمہ لگاتے اور اس رات قیام کرتے مساجد میں اور موافقت کی اسکی اسحاق بن راھویہ نے اس پراور کہااس رات مساجد میں باجماعت قیام کے با رے میں کہ یہ بد عت نہیں ہے ۔نقل کیا حرب الکر ما نی نے ا سکے مسائل میں۔

  اور دو سری بات : بے شک اس رات مساجد میں نماز، قصّوں اوردعا کیلئے اجتماع کرنے میں کراہت ہے اور اسمیں کوئی کراہت نہیں کہ کو ئی شخص اکیلے اپنی نماز پڑ ھے اس رات میں یہ قول اوزاعی کا ہے جو اہل شام کے امام ہیں اور انکے فقیہ اور عالم ہیں ۔اور یہ زیادہ قریب ہے اگر اللہ تعالیٰ نے چا ہاطرف اسکے کے ۔

  انھوں نے فر ما یا : اور نہیں وہ پہچانتے ہیں نصف شعبان کی رات کے بارے میں امام احمد کے قول کو اور وہ نکا لتے ہیں اس رات کے قیام کے استحباب کے با رے میںدو روایتوں میں سے ۔ان میں سے ایک روایت شب عیدکے قیام کے بارے میں ہے توبے شک (روا یت میں )جماعت سے قیام کر نا اس رات میں مستحب نہیں کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا ان کے اصحاب سے منقول نہیں ہے ۔اور مستحب سمجھا اس کو (روا یت میں )،عبدالرحمن بن یزید بن الاسود نے اورالبتہ اس پر عمل بھی کیا اور وہ تابعین میں سے ہیں ۔تو اسی طرح نصف شعبان کی رات کے قیام کامعاملہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب سے اس بارے میں کچھہ بھی ثابت نہیں اور ثبوت ملتا ہے اس با رے میں تابعین کے ایک گروہ سے جواہل شام کے فقھا ءکے پیروکارتھے ۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کے قول سے یہ مقصودہے اور اس میں صراحت ہے اس با رے میں کہ بے شک :آپ اور انکے ا صحاب سے نصف شعبان کی رات کے با رے میں کسی چیز کا ثبوت نہیں ملتا اور جہاں تک جومذہب اختیار کیا ہے امام اوزاعی رحمہ اللہ نے افراد کے لئے اسکا قیام مستحب ہو نے کے با رے میں اور حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اسی قول کوا ختیار کیا ہے وہ غریب اور ضعیف ہے اسلئے کہ ہر وہ چیز جو دلیل شرعی سے ثابت نہیں وہ مشروع نہیں ہوسکتی۔نہیں ہے جائز کسی مسلمان کے لئے کہ وہ اللہ کے دین میں نئے طریقے ایجاد کرے ۔اس کا م کااکیلے کر نا یا باجماعت کر نا دو نوں برابر ہیں اور اسکا چھپ کر کر نا یا اعلانیہ کر نا ایک جیسا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قو ل کی بنا پر : جس نے کوئی ایساعمل کیا جو ہمارے حکم کے مطابق نہیں وہ مر دود ہے ۔اور اسکے علاوہ دلا ئل ہیں جو بدعت کے انکار اور اس سے بچنے کے با رے میں ہیں ۔

  اور فر مایا امام ابو بکرطر طوشی نے اپنی کتاب میں (الحوادث والبدع) جودلیل ہے اسکی (اور روایت کیا ابن وضاح نے زید بن اسلم سے وہ فرماتے ہیں :نہیں پا یا ہم نے اپنے مشا ئخ اور فقھاءمیں سے کسی ایک کو بھی کہ نصف شعبان کی طرف التفا ت کرتے ہو ں اور نہ ہی مکحول کی حدیث کی طرف التفا ت کرتے تھے ۔اور نہ ہی وہ اسکے علاوہ اسکی فضیلت سمجھتے تھے ۔

 اورکہا گیاابن ابی ملیکہ سے بے شک زیاد النمیری کہاکرتے تھے۔”بے شک نصف شعبان کی رات کا اجر لیلةالقدر کے اجر کی ما نند ہے “ پس کہا ( اگر میں نے سنا ہو تا اسکو اور میرے ہاتھ میں عصا ہوتاتو میں اسکو ضرورما رتا )وہ قصہ گو تھا ، حاصل کلام یہ ہے۔اور فر ما یا علامہ شو کا نی نے الفوائد المجموعہ میں جودلیل ہے اسکی (حدیث :اے علی جس نے سو رکعتیں نصف شعبان کی رات میں پڑھیں اور ہر رکعت میں سورةالفاتحہ کے بعد دس مر تبہ سورةاخلاص پڑھی اللہ اسکی ہر حا جت پو ری کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

یہ حدیث مو ضو ع ہے اور اسکے الفاظ میں اسکے کرنے والے کے ثواب کے با رے میں اتنی صراحت ہے کہ انسان اسکے موضوع ہو نے کے با رے میں شک نہیں کر سکتا ۔اور اسکے راوی مجھول ہیں ۔حالانکہ یہ ایک دوسری اور تیسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے اور سب کی سب موضوع ہیں ۔اور اسکے راوی مجھول ہیں۔اور فر ما یا(المختصر)میںیہ کہ نصف شعبان کی رات نماز وا لی حدیث باطل ہے اور ابن حبان کی حضرت علی والی حدیث ( جب نصف شعبان کی رات ہو توقیام کرو اور دن کو روزہ رکھو )ضعیف ہے اور کہا (اللالی)میں :نصف شعبان میں طویل قیام کی فضیلت ہے جس میں دس مر تبہ سورةاخلاص کیساتھ سو رکعتیںپڑھی جائیں جسے دیلمی اور اسکے علاوہ دوسروں نے روایت کیاوہ موضوع ہیں ۔اور زیادہ ترراوی اسکی تینوںسند وں میں مجھول اور ضعیف ہیں ۔اور فر ما یا : با رہ رکعتیں تیس مر تبہ سورةاخلاص کیساتھ پڑھی جائیں موضوع ہے اور چالیس رکعتوں والی روایت بھی موضوع ہے اور تحقیق دھو کہ کھا یااس حدیث سے فقھا ءکی جماعت نے جیسے صاحب الاحیا ءنے اوراسکے علاوہ اور کچھ مفسرین نے بھی۔ اورانہوں نے اس رات کی نماز کے با رے میں روایت کیا۔ مدد فر مامیری : نصف شعبان کی رات کے با رے میںمختلف طریقوں سے آنے وا لی روایات ساری کی ساری با طل موضوع ہیں اور یہ ترمذی کی روایت کر دہ بی بی عا ئشہ کی حدیث کے منافی نہیں کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بقیع تشریف لے جا نے اور اللہ تعالیٰ کے اس رات آسمان دنیا پر نزول اور بنوکلب کی بکریوں کے با لوں سے بھی زیادہ مغفرت کرنے کا ذکر ہے پس بے شک اس رات نماز پڑھنے کی بات بھی مو ضوع ہے کیونکہ حدیث عا ئشہ میں ضعف بھی ہے اور انقطاع بھی ہے جیسا کہ اس سے پہلے حدیث علی جس میں اس رات کے قیام کا ذکر ہے ۔اس بات کے منافی نہیں کہ یہ نمازموضوع ہے اس وجہ سے کہ اس میں ضعف ہے جیسا کہ ذکرکیا ہم نے اسکا انتھی المقصود ۔ا ور فر ما یا الحافظ العراقی نے ( نصف شعبان کی رات نماز وا لی حدیث مو ضوع ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ با ندھا گیا ہے۔ ا ور فر ما یا امام نووی نے اپنی کتاب المجموع میں نماز جو کہ صلاةالرغائب کے نام سے معروف ہے جو کہ مغرب اور عشا ءکے درمیان با رہ رکعتیں ہیں،رجب کے پہلے جمعہ کی رات ،اور نصف شعبان کی رات سو رکعتیں ہیں ۔یہ دو نوں نمازیں بدعت منکرہ ہیں ۔اور نہ دھو کہ کھا ئیں اس وجہ سے کہ ان دو نوں کا ذکر قوت القلوب اور احیاءعلوم الدین میں ہے ۔اور نہ ہی اس حدیث سے جو ذکر کی گئی ان دو نوں کے با رے میں کیونکہ وہ بلا شبہ سب کی سب باطل ہیں ۔اور نہ دھو کہ کھا ئیں ان سے جن کو ان دو نوں کے حکم کے با رے میںشبہ ہو آئمہ کرام میں سے جنہوں نے پھراسکے استحباب کے بارے میں لکھا بے شک انھیں اس معاملے میں مغالطہ ہوا ہے اور شیخ امام ابو محمد عبدالرحمن بن اسمعیل المقدسی نے ان دو نوں کے باطل ہو نے پر ایک بہت ہی نفیس کتاب بھی لکھی ہے اور وہ بہت خوبصورت اور عمدہ ہے اور اہل علم کے لئے اس مسئلے میں بہت زیادہ باتیں ہیں ۔اگر ہم اس کو نقل کر نے چلیں تو بات اور طویل ہو جا ئے گی ۔ اور شائد کہ جو کچھ ہم نے بیان کر دیا ہے وہ طالب حق کے لئے قابل کفایت اور قناعت ہو ۔اوراس میں سے جو کچھ پہلے بتایا جا چکا ہے قرآنی آیات اور احادیث اور اہل علم کے کلام میں سے وہ واضح کر تا ہے کسی بھی طالب حق کو کہ نصف شعبان کی رات محفلیں یا نماز کے لئے جمع ہو نا اسکے علاوہ اور اسکے دن کو رو زے کے لئے خاص کر نا ۔اکثر اہل علم کے نزدیک بدعت منکرہ ہے اور اسکے ہماری شریعت مطہرہ میں کو ئی دلیل نہیں ملتی بلکہ یہ تو وہ چیز ہے جو صحابہ کرام کے دور کے بعد ایجاد کر لی گئی ۔اورطالب حق کے لئے تو اس بات میں پس اللہ عزو جل کی بات کافی ہے ۔

 اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الاِسلاَمَ دِینًا۔( المایدہ ۔٣) آج میں نے تمہا رے لئے تمہا رے دین کو مکمل کر دیا ہے۔اور اسی معنی میں جو بھی آیات میںآیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول من احدث فی امرنا ھزاما لیس منہ فھورد جس نے دین میں کوئی ایسا کام کیا جس کی بنیاد شریعت میں نہیں وہ کام مردود ہے۔ ۔اورجو کچھ بھی اسی معنی میں احادیث میںآیا ہے۔اور صحیح مسلم میں ابو ھریرہ سے روا یت ہے وہ کہتے ہیںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ۔لا تخصو الیلة الجمعة بقیام من بین اللیالی ولا تخصوا یو مھا با لصیام من بین الایام الا ان یکو ن فی صوم یصومہ احدکم

 تر جمہ : جمعہ کی رات قیام اللیل کے لئے مخصوص نہ کرو اور نہ جمعہ کا دن رو زے کے لئے مخصوص کرو ہا ں اگر کوئی شخص روزہ رکھنے کا عا دی ہو اور اس میں جمعہ آ جا ئے تو پھر جا ئز ہے ۔ تو اگرراتوں میں سے کسی رات کوعبادت کے لئے خاص کر نا جائز ہوتا تو سب سے پہلے جمعہ کی رات ہو تی ۔کیونکہ سب دنوں میں بہترین جمعہ ہے جس پر سو رج طلوع ہوا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ اس پر نص ہیں ۔تو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلةالجمعہ کو راتوں میںسے قیام کےلئے خاص کر نے سے روکا ہے تو یہی دلیل ہے کہ باقی کسی رات کو کس طرح خاص کیا جا سکتا ہے کسی طرح جائز نہیں کہ کسی رات کوعبادت کے لئے خاص کیا جا ئے الا یہ کہ اسکے خاص کر نے کی کو ئی دلیل ہو ۔اور جہا ں تک لیلة القدر ہے اور رمضان کی راتوں میںقیام کر نا اور عبادت میں کو شش کر نا مشروع ہے تو اسکی خبر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ۔اور امت کو بھی اسکے قیام کےلئے فر ما یا اور خود بھی اس پر عمل کیا جیسا کہ صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ انھوں نے فر مایا :من قام رمضان ایمانا و احتساباغفر لہ ما تقدم من ذنبہ و من قام لیلةالقدر ایمانا و احتساباغفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ترجمہ:جس نے رمضان میں ایمان اور احتساب کی نیت سے قیام کیا اسکے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جا ئیں گے اور جس نے شب قدر میں قیام کیا اسکے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جا ئیں گے ۔تو اگرنصف شعبان کی رات یا رجب میں پہلے جمعہ کی رات یا معراج کی رات کو شبینوں یا عبادت کے لئے مخصوص کر نا مشروع ہو تاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کو ضرور اسکے با رے میں بتاتے او رخود آپ کا یہی عمل ہو تا اور اگر اس بارے میں کو ئی چیز ہو تی تو صحابہ کرام ضرور امت تک پہنچاتے اور اس کو امت سے نہ چھپا تے کیونکہ وہ بہترین لوگ تھے اور انبیاکے بعد سب سے زیادہ خیرخواہ لوگوں میں سے تھے اور اللہ تعالیٰ اصحاب رسول سے راضی ہو گیا اوروہ اللہ سے راضی ہوگیے۔اور بے شک یہ جان لیا گیا ہے علماءکے کلام سے کہ رجب کی اول شب جمعہ یا نصف شعبان کی رات کی فضیلت کے بارے میں کوئی ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے نہیں ملتا تو جان لوبے شک ان دو نوں راتوں کے شبینے اسلام میں بدعت ہیں۔اور اسی طرح ان کوعبادت کے لئے خاص کر نا بدعت منکرہ ہے ۔ اور اسی طرح رجب کی ستائیسویں رات کے بارے میں بعض لو گوں کا اعتقاد ہے کہ وہ شب اسراءو المعراج ہے ۔اسکو بھی عبادت کے لئے خاص کر نا جائز نہیں ہے ۔جیسا کہ اس میں شبینے منعقد کر نا جائز نہیں جو کہ سابقہ دلائل میں ہے ۔یہ اگر تم جان لیتے تو کس طرح جبکہ علماءکی بات درست ہے کہ وہ نہیں پہچانتے ۔اور بات جس نے کہا بے شک یہ رجب کی ستائیسویں رات ہے تو یہ باطل قول ہے اسکی کو ئی اساس نہیں ہے احادیث صحیحہ میں اور بے شک کسی نے بہت اچھا کہا اور بہترین کام اسلاف کے ہیں جو ہدایت پر ہیں اور بدترین کام بدعتی کے ہیں جو دین میں کو ئی نئی چیز لائیں ۔اور اللہ سے ہی سوال ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو سنت کو مضبوطی سے تھامنے اور اس پر ثبات کی توفیق دے اور ان سے بچائے جو اسکی مخالفت کر تے ہیں بے شک وہ جو بہت کریم ہے اور اللہ کی رحمتیں اسکے رسول اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر انکی اٰل اور اصحاب سب کے سب پر ۔